ابو نصر فارابی

رکستان کے ایک شہر کا نام ہے ”فاراب“! بہت مدت گزری،اس شہر کے ایک محلے میں ایک بہت ہی غریب لڑکا رہتا تھا جسے علم حاصل کرنے کا بے حد شوق تھا۔دن کو وہ اپنے استاد کے ہاں جا کر سبق پڑھتا اور جب رات آتی،وہ دن کا پڑھا ہوا سبق یاد کرتا اور اس وقت تک نہیں سوتا تھا جب تک یہ سبق پوری طرح یاد نہیں ہو جاتا۔

اس کی چارپائی کے سرہانے مٹی کا ایک دیا جلتا رہتا تھا،اسی دیے کی روشنی میں وہ رات کے دو،دو بجے تک پوری پوری کتاب پڑھ لیتا اور بعض اوقات ساری رات ہی پڑھنے میں گزر جاتی۔

ایک رات کا ذکر ہے وہ اپنی چارپائی پر بیٹھا پوری توجہ اور انہماک سے کسی کتاب کا مطالعہ کر رہا تھا کہ دیے کی روشنی مدھم ہونے لگی۔اس نے بتی کو اونچا کیا،روشنی ہوئی تو ضرور مگر بہت جلد ختم ہو گئی۔

اب جو اس نے دیے پر نظر ڈالی تو یہ دیکھ کر اسے بڑا افسوس ہوا کہ تیل تو دیے میں ہے ہی نہیں،روشنی اگر ہو تو کیوں کر!اب کیا کروں؟اس نے اپنے دل میں سوچا۔رات آدھی کے قریب گزر چکی تھی،شہر کی دکانیں بند ہو چکی تھیں اور اگر وہ کھلی بھی ہوتیں تو لڑکے کو کچھ فائدہ نہ ہوتا کیونکہ اس کے پاس تیل خریدنے کیلئے بھی پیسے نہیں تھے۔پیسوں کے بغیر کون دکاندار تیل دے سکتا تھا۔


اس حالت میں بہتر یہی تھا کہ وہ کتاب ایک طرف رکھ کر سو جائے مگر ابھی تو اسے پورے دو گھنٹے اور پڑھنا تھا،وہ یہ دو گھنٹے کس طرح ضائع کر سکتا تھا اور پھر دوسرے دن بھی اس کے پاس کہاں سے پیسے آتے۔روٹی تو وہ ایک مسجد میں جا کر کھا لیتا اور محلے کے ایک بچے کو پڑھا کر جو رقم ملتی تھی،اس سے وہ اپنے لئے معمولی کپڑے اور تیل خرید لیتا تھا لیکن اسے حال ہی میں جتنے پیسے ملے تھے،وہ خرچ کر چکا تھا۔
دیے کے اس طرح بجھ جانے سے وہ بہت پریشان تھا۔
وہ اپنی کوٹھری سے نکل کر دروازے پر آ بیٹھا۔رات کا اندھیرا ہر جگہ پھیلا ہوا تھا،کہیں کوئی چراغ جلتا ہوا دکھائی نہیں دے رہا تھا،سب لوگ آرام کر رہے تھے۔


Comments

Post a Comment